تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی
حوزہ نیوز ایجنسی| گرچہ شام کے بحران پر تبصرہ کرنا اور اسکی نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے پس منظر میں جا کر حالات کی کا صحیح ادراک ایک صبر آزما اور طاقت فرسا کام ہے، پھر بھی ہم نے کوشش کی ہے کہ اس تحریر میں مکمل بے طرفی کے ساتھ ایک دقیق تجزیہ پیش کریں اور امت مسلمہ کے حقیقی کردار کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہوئے موجودہ مسائل کے حل کی طرف اشارہ کریں۔
بشار الاسد کے بعد شام :
بشار الاسد کے ممکنہ بعد کے حالات کا تجزیہ ایک پیچیدہ موضوع ہے، کیونکہ یہ مسئلہ داخلی، علاقائی اور عالمی عوامل سے جڑا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ امت مسلمہ کا کردار اور اس کی ذمہ داریاں بھی زیرِ غور آتی ہیں۔
شام کا بحران:
ایک مختصر پس منظر
شام میں 2011 میں شروع ہونے والے مظاہرے جلد ہی ایک خونریز خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئے، جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔
شام کے نازک حالات کے پیچھے عوامل و محرکات
1. داخلی عوامل:
بعض جگہوں پربشار الاسد کی حکومت کی آمرانہ پالیسی، حکومتی بدعنوانیوں اور اقلیتوں پر مبنی اقتدار، غربت، سلفیت مذہبی تعصب، مسلسل خانہ جنگی جیسے مسائل نے مجموعی طور پر عوامی ناراضگی کو جنم دیا۔
مزید بر آں بہار عرب کے اثرات نے شامی عوام کو تبدیلی کا مطالبہ کرنے پر اکسایا۔
2. علاقائی مداخلت:
ایک طرف سے اسلامی جمہوریہ ایران اور حزب اللہ اور روس نے بشار الاسد کی حمایت کی، جبکہ ترکی، سعودی عرب، اور قطر نے مختلف باغی گروہوں کی مدد کی۔
ایران کا موقف یہ تھا کہ مشرق وسطی میں ایک مضبوط حکومت ضروری ہے، جس کے بغیر امن ممکن نہیں ہے، خاص کر ایسی حکومت کی پشت پناہی بہت ضروری ہے جو مزاحمتی محاذ کے ہمراہ ہو جبکہ باغی گروہوں کی حمایت میں بقیہ ممالک کے پاس ذاتی مفادات کے علاوہ زیادہ کچھ نہیں تھا دوسری طرف کردوں نے شمالی شام میں خودمختاری حاصل کرنے کی کوشش کی، جس نے مزید پیچیدگی پیدا کی۔
3. عالمی طاقتوں کا کردار:
روس نے بشار الاسد کی حکومت کو فوجی مدد فراہم کی اور اپنے اسٹریٹجک مفادات کے لیے شام میں اپنی موجودگی کو مضبوط کیا۔
امریکہ اور یورپی ممالک نے مختلف اوقات میں باغی گروہوں کی مدد کی، مگر ان کا کردار غیر واضح رہا کہ وہ کیا چاہتے ہیں کبھی انہوں نے کچھ مسلح گروہوں کو انتہا پسند قرار دیتے ہوئے ان پر پابندی لگائی اور انہیں دہشت تنظیم قرار دیا کبھی انہیں دہشت گردی اور ممنوعہ تنظیموں سے سے نکال کر فراخدلی کے ساتھ مدد کی جیسا کہ خود ھئیت تحریر الشام جسے پہلے ممنوعہ اور دہشت گرد قرار دیا گیا اور اب اسی کے ساتھ امریکی انتظامیہ نہ صرف مذاکرات کر رہی ہے بلکہ اس گروہ کو ممنوعہ فہرست سے نکالنے پر بھی سوچ بچار ہو رہا ہے گو کہ دہشت گردی کا معیار امریکہ کے مفادات ہیں نہ دہشت گردانہ کاروائیاں۔
بشار الاسد کے بعد شام کا ممکنہ منظرنامہ
گرچہ جولانی کی سربراہی میں ہئیت تحریر الشام نے عبوری وزیر اعظم کا اعلان کر دیا ہے، البتہ ابھی آگے کا کچھ پتہ نہیں، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ بشار الاسد کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد شام کے لیے ابھی بھی مختلف ممکنہ حالات سامنے آ سکتے ہیں:
1. داخلی تقسیم اور مزید خانہ جنگی:
بشار الاسد کے بعد اقتدار کا خلا پیدا ہوگا، جو مختلف گروہوں کے درمیان طاقت کی کشمکش کو بڑھا سکتا ہے۔
علوی، سنی، کرد، اور دیگر اقوام و مذاہب کے درمیان پہلے سے موجود اختلافات مزید گہرے ہو سکتے ہیں۔
داعش یا دیگر شدت پسند گروہ دوبارہ ابھر سکتے ہیں۔
2. وفاقی یا کنفیڈرل نظام کا قیام:
شام مختلف علاقوں میں تقسیم ہو سکتا ہے، جہاں ہر گروہ اپنے علاقے میں خودمختاری حاصل کرے۔
کردوں کی خودمختاری کے بھی امکانات زیادہ ہیں، جو ترکی، ایران، اور عراق کے لیے تشویش کا باعث ہوگا۔
3. علاقائی طاقتوں کا کنٹرول:
ترکی، اور سعودی عرب شام کو اپنے اسٹریٹجک مفادات کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، جس سے شام ایک پھر سے ایک پراکسی میدان جنگ بن سکتا ہے۔ روس اور امریکہ کے درمیان شام پر اثر و رسوخ کی جنگ بھی جاری رہ سکتی ہے۔
4. امن کا امکان:
اگر تمام فریقین سیاسی حل پر متفق ہوں تو شام میں ایک مخلوط حکومت یا عبوری حکومت کے قیام کے امکانات ہو سکتے ہیں۔
یہ امن کا راستہ طویل اور مشکل ہوگا، کیونکہ ہر فریق اپنے مفادات کو ترجیح دے گا۔
موجودہ حالات کا ایک جائزہ:
گزشتہ چند دنوں سے ہر ایک نظریں ٹی وی اسکرین پر یا اپنے ٹبلیٹ و موبائل کے صفحات پر مرکوز مشرق وسطی کے حالات پر ہیں ہر ایک دردمند انسان آنے والے کل کو لیکر پریشان ہے، مستقبل کو لیکر ہر ایک کے دل میں بے چینی و اضطراب ہے۔
گرچہ یہ حالات نئے نہیں ہیں، اس سے قبل تاریخ میں بارہا اس خطے نے اس سے بدتر حالات دیکھے ہیں، جہاں تک موجودہ صورت حال کی بات ہے تو موجودہ حالات کا تجزیہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ایک پیچیدہ اور سنگین تنازعہ ہے جو کئی پہلوؤں پر مشتمل ہے، جن میں سیاسی، انسانی اور بین الاقوامی عناصر شامل ہیں۔ یوں تو شام کا تنازعہ 2011 میں شروع ہوا تھا اور اس کے بعد سے یہ ایک خانہ جنگی میں تبدیل ہو گیا، جس نے لاکھوں افراد کو متاثر کیا۔
سیاسی پس منظر
شام میں بدامنی کا آغاز اسلامی بیداری (بہار عرب) کے دوران ہوا، جب اسد حکومت کے خلاف تکفیری عناصر و بیرونی طاقتوں کی پشت پناہی میں بڑی تعداد میں مظاہرے شروع ہوئے، جس سے بحران نے شدت اختیار کی اور اپوزیشن اور حکومت کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی اور ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا جو سفارتی کوششوں سے کبھی نہ بھر سکا۔ اس وقت تکفیری عناصر اور مغربی طاقتوں نے اپنا پورا زور بشار حکومت کو ہٹانے میں لگا دیا لیکن اسلامی جمہوریہ اور روس کے آگے کسی کی نہ چلی شہید قاسم سلیمانی اور سید حسن نصر اللہ کی بے لوث خدمات اور قربانیوں نے تکفیریوں اور دہشت گردوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور بشار حکومت صہیونی عزائم کے مقابل مزاحمتی محاذ کا ایک حصہ بن گئی، جس نے خانہ جنگی کو جھیلا، لیکن اپنے مؤقف سے پیچھے نہ ہٹی اور صیہونی خوابوں کو ناکام بنا دیا۔
جنگ کے دوران انسانی صورتحال
شام میں جنگ کی وجہ سے لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، 13 ملین سے زائد افراد اولیں انسانی امداد کی ضرورت کے تحت سرگرداں رہے، بہت سے لوگ ہجرت کر گئے۔ مہاجرین کی بڑی تعداد نے ترکی، لبنان، اردن اور یورپ میں پناہ لی، جس سے خطے میں مزید انسانی بحران پیدا ہوا۔
بڑی طاقتوں کی مداخلتیں اور بحران میں اضافہ۔
آہستہ آہستہ شام کا تنازعہ مقامی سطح سے بڑھ کر بین الاقوامی سیاست کا محور بن گیا۔
روس نے بشار الاسد کی حکومت کی حمایت کی اور فوجی امداد فراہم کی جبکہ امریکی پالیسی مختلف تھی امریکہ نے داعش کے خلاف جنگ میں مداخلت تو کی، لیکن اس کی پالیسی میں تضادات نظر آئے کہیں وہ دہشت گرد عناصر کو سپورٹ کرتا نظر آیا تو کہیں ان کے خلاف حال ہی میں شام میں تحریر الشام کے سلسلہ سے بھی اسکا طرز عمل ایسا ہی رہا کہیں تو جولانی کے خلاف سخت ایکشن کی بات تھی اب نہ صرف وہ امریکہ کی آنکھوں کا تارا ہے، بلکہ تحریر الشام جو امریکہ کی نظر میں دہشت گرد گروہ تھا، اسے دہشت گرد گروہ کی فہرست سے نکالنے پر سوچ بچار ہو رہا ہے۔
دوسری طرف ترکی نے جہاں پہلے کرد ملیشیاؤں کے خلاف کارروائیاں کیں، وہیں تحریر الشام کو فنڈ اور اسلحے فراہم کیے اور ایک ایسے وقت میں مزاحمتی محاذ کے پیکر میں خنجر بھونک دیا جب صیہونی حکومت حزب اللہ کے خلاف ملنے والی پے در پے شکست کے بعد حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی پر مجبور ہوئی تھی اور گریٹر اسرائیل کا اسکا خواب چکنا چور ہو چکا تھا، لیکن ترکی کے اس خنجر نے ایک بار پھر جہاں مزاحمتی محاذ کو درونی طور پر چوٹ پہنچائی، صیہونی ریاست کو پھر سے موقع فراہم کر دیا کہ وہ شام میں گھس کر کاروائیاں کرے اور اپنے خلاف استعمال ہونے والے ممکنہ محاذوں کو تباہ و برباد کر دے۔
داعش اور دہشت گرد گروہوں کا رول
داعش اور دیگر شدت پسند تنظیموں نے شام کی خانہ جنگی کو دوران جنگ مزید پیچیدہ بنایا دیا ان گروہوں نے ملک کے مختلف حصوں پر قبضہ کیا اور عالمی سطح پر خوف و ہراس پھیلایا دنیا بھر میں جس سے اسلام بدنام ہوا اور مسلمانوں پر دہشت گردی پھیلانے کا الزام لگا۔
بشار اسد کے بعد کیا؟
شام میں جنگ کی شدت اب پہلے جیسی نہیں بشار اسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد مختلف دھڑے مل کر حکومت سازی کا خاکہ تیار کر رہے ہیں، لیکن امن کے قیام میں ابھی بھی مشکل ہے۔
امن کے لیے جامع مذاکرات اور سیاسی تصفیہ ضروری ہیں، ساتھ ہی بین الاقوامی برادری کو انسانی امداد اور مہاجرین کی بحالی کے لیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔
اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کو شفاف اور مؤثر طریقے سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
فی الحال شام کی صورتحال پیچیدہ ہے اور اسے فوری حل کی ضرورت ہے، تاکہ انسانی جانوں کو مزید نقصان سے بچایا جا سکے اور خطے میں امن بحال ہو سکے۔
آگے کے حالات کیا ہوں گے؟
بشار الاسد کے بعد شام کی پیش گوئی کرنا ایک پیچیدہ اور غیر یقینی معاملہ ہے، کیونکہ شامی تنازعہ کی بنیادیں داخلی، علاقائی اور عالمی سطح پر گہری ہیں۔ اس کے باوجود ہم کچھ اہم پہلوؤں پر غور کر سکتے ہیں بشار الاسد کی حکومت کا مستقبل بہت حد تک مختلف دھڑوں کی آپسی مفاہمت انکی تعمیری صلاحیتوں اور عالمی طاقتوں کی پالیسیوں پر منحصر ہے۔ اگر بشار الاسد کے بعد کوئی مختلف گروہوں کی نمائندہ حکومت آتی ہے تو اس میں چند اہم پہلو قابل غور ہوں گے:
سیاسی خلا اور غیر مستحکم حکمرانی:
بشار الاسد کی حکومت کے بعد اگر سیاسی خلا پیدا ہوتا ہے تو اس کا فائدہ مختلف عسکری گروپوں، بشمول داعش اور دیگر شدت پسند تنظیموں کو ہوسکتا ہے، جو اپنے اثر و رسوخ کو بڑھا سکتے ہیں، ایسی صورت میں شام ایک اور خانہ جنگی کی طرف جا سکتا ہے۔
مذاکرات اور سمجھوتے:
عالمی طاقتوں جیسے امریکہ، روس اور بڑی طاقتوں کے مفادات کے مطابق، یہ ممکن ہے کہ شامی تنازعہ کا حل عالمی سطح پر طے ہو، لیکن یہ مذاکرات اور سمجھوتے داخلی امن کی ضمانت نہیں دیں گے، کیونکہ شامی عوام اور مختلف گروپوں کے درمیان شدید تقسیمات ہیں، جن میں ایک بڑا مسئلہ کردوں کا ہے۔
کردوں کا مسئلہ ایک اہم پہلو کا حامل ہوگا۔ بشار الاسد کی حکومت کے بعد کرد علاقے میں آزادی کی تحریکیں بڑھ سکتی ہیں، جس سے ترکی اور دیگر ممالک کے ساتھ تنازعات بڑھنے کا خدشہ ہے۔
تحریر الشام کا مستقبل:
تحریر الشام (جو کہ جیش الفتح کے طور پر بھی جانی جاتی ہے) شام میں ایک اہم عسکری گروہ ہے جو اکثر علاقے میں کنٹرول کے لیے لڑتا رہا ہے۔ اس کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے، عالمی طاقتیں اس کے ساتھ کیسے سلوک کرتی ہیں گرچہ یہ گروہ دنیا بھر میں ایک دہشت گرد گروہ کے طور پر جانا جاتا ہے، لیکن اس وقت حکومت میں بڑی حصہ داری کا دعوے دار یہی گروہ ہے۔
تحریر الشام کے عسکری اثرات خاص طور پر شمالی شام میں ہیں، حکومت میں آنے کے بعد یہ اثرات پورے شام پر محیط ہو سکتے ہیں، جہاں تک بین الاقوامی اثر کی بات ہے تو ترکی کے علاوہ بظاہر تحریر الشام کا عالمی سطح پر کوئی بڑا حمایتی نہیں ہے، خاص طور پر جب اسے دہشت گرد تنظیم کے طور پر عالمی سطح پر تسلیم کیا یہ اور بات ہے برطانیہ اور امریکہ دونوں ہی کی جانب سے ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ اسے دہشت گرد گروہوں کی فہرست سے جلد ہی نکال دیا جائے گا جو بھی ہو اس گروہ کا مستقبل بڑی حد تک بین الاقوامی تعلقات پر منحصر ہوگا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کا کردار:
اسلامی جمہوریہ ایران نے شام میں بشار الاسد کی حمایت کی ہے اور اس کی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے بہت سرمایہ کاری کی ایران کا مقصد شام میں مزاحمتی محاذ کو مستحکم کرنا ہے، تاکہ وہ صہیونیت کے خلاف ایک مضبوط محاذ قائم کر سکے اس کے لئے ضروری ہے، ایران اپنے عسکری اور سیاسی اثر و رسوخ کو قائم رکھے شک نہیں کہ فی الحال حالات سازگار نہیں ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ صبر و تحمل کے ساتھ آگے بڑھے تو نئی حکومت کے ساتھ پہلے کی طرح اسکا تعاون جاری رہ سکتا ہے اور ایران اپنی فوجی موجودگی کو بھی آہستہ آہستہ بڑھا سکتا ہے اور علاقائی سیاست میں اپنی طاقت کو مزید مستحکم کر سکتا ہے، خاص طور پر عراق، لبنان اور یمن میں اپنے اتحادیوں کے ذریعے جسکے اثرات شام پر پڑنا ناگزیر ہوں گے۔ اسلامی جمہوریہ کے مسائل محض سیاسی نہیں، بلکہ مذہب بھی دخیل ہے
مذہبی اثرات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، ایران نے شام میں مسلسل علوی شیعہ حکومت کی حمایت کی ہے اور بشار الاسد کے بعد بھی بھی ایران کا اثر شیعہ اقلیتوں اور ایران کے اتحادیوں کے ذریعے برقرار رہ سکتا ہے۔
بشار اسد کے بعد اسرائیل کو کیا فائدہ ہوگا؟
اسرائیل کی پالیسی ہمیشہ شام میں استحکام کے خلاف رہی ہے، خاص طور پر ایران کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے۔ اس وقت اسرائیل ایران کے شام میں فوجی اڈوں کی موجودگی سے پریشان ہے اور مسلسل ان تنصیبات کو نشانہ بنا رہا ہے جو ممکنہ طور پر اسکے خلاف استعمال ہو سکتی ہیں بشار اسد کے بعد اسرائیل کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ ایران کے اثر کو کم کرنے کے لیے زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرے حالیہ صیہونی حملوں کو اسی تناظرمیں دیکھاجا سکتا ہے اسرائیل بزعم خود شام میں ایران کی موجودگی کو روکنے کے لیے اپنی فوجی کارروائیاں جاری رکھ سکتا ہے، شام میں عدم استحکام صہیونی حکومت کے لئے بہترین موقع ہے کہ وہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے بغیر روک ٹوک جو چاہے، اگر شام میں سیاسی خلا یا خانہ جنگی ہوتی ہے تو اسرائیل کے لیے یہ ایک موقع ہو گا کہ وہ اپنے مفادات کو بچانے کے لیے نئی حکومتی پالیسیوں میں رخنہ اندازی کرے کل ملا کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ فی الحال شام کا مستقبل پیچیدہ ہے اور عالمی طاقتوں کے مفادات، داخلی مسائل اور علاقائی تحفظات پر منحصر ہوگا۔ بشار الاسد کے بعد شام میں سیاسی خلا یا مزید خانہ جنگی کا امکان ہو سکتا ہے، کل ملا کر ایک بار پھر امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے کردار کو ادا کرے، تاکہ پھر سے ایک اور ملک خانہ جنگی کی طرف نہ جائے اور جنگ پھر سے مسلمان بنام مسلمان کی شکل اختیار نہ کر کے صہیونیت بنام امت اسلامی ہی کی صورت رہے، بالکل ویسے ہی جیسا طوفان الاقصی کے بعد ہوا تھا اور صہیونی ریاست کو اپنے ظلم و ستم کا حساب دینا پڑا تھا۔
امت مسلمہ کا کردار:
امت مسلمہ کے کردار کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
1. سیاسی اور سفارتی کردار:
اسلامی ممالک کو شام کے مسئلے کے حل کے لیے متحدہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ او آئی سی (OIC) کو فعال کردار ادا کرتے ہوئے متحارب فریقین کو ایک میز پر لانا ہوگا۔
بڑے اسلامی ممالک جیسے سعودی عرب، ترکی، اور ایران کو اپنے اختلافات ختم کرکے شام میں امن کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔
2. انسانی امداد کی بحالی کا کردار:
شام کے مہاجرین کی مدد کرنا امت مسلمہ کی اولین ذمہ داری ہے۔
جنگ سے متاثرہ علاقوں کی تعمیرِ نو کے لیے مشترکہ فنڈ قائم کیا جانا چاہیے۔ تعلیمی، طبی، اور معاشی مدد فراہم کرکے شامی عوام کو ایک بہتر مستقبل کی طرف لایاجا سکتا ہے۔
3. نظریاتی اور مذہبی کردار:
امت مسلمہ کو مسلکی اور نظریاتی اختلافات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے، کیونکہ یہ اختلافات شام کے بحران کی جڑ ہیں۔ ان اختلافات کو کم کرنے میں علماء کا بڑا کردار ہے، ایسا نہ ہو مسلک کی عینک لگا کر انتہا پسند دہشت گردوں کو ہری جھنڈی دکھا دی جائے یہ بہت نقصان دہ ہوگا۔
علماء اور مذہبی رہنما شامی عوام میں امن، اتحاد، اور بھائی چارے کے پیغام کو فروغ دے سکتے ہیں، بشرطیکہ مسلکی تعصب کی عینک سے مسائل کو نہ دیکھیں۔
رکاوٹیں اور چیلنجز
1. امت مسلمہ میں داخلی اختلافات اور مسلکی تقسیم شام کے بحران کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
2. اسلامی ممالک کی سیاست اکثر علاقائی اور عالمی طاقتوں کے زیر اثر رہتی ہے، جس سے آزادانہ کردار ادا کرنا مشکل ہوتا ہے۔
3. شام کی پیچیدہ صورتحال کو سمجھنا اور تمام فریقین کو اعتماد میں لینا ایک طویل المدتی عمل ہوگا۔
بشار الاسد کے بعد شام کا بحران مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے، مگر امت مسلمہ کے پاس موقع ہے کہ وہ اپنے اتحاد اور حکمت سے اس مسئلے کو حل کرے۔ ایک مستقل اور منصفانہ سیاسی حل ہی شام کے عوام کو امن، ترقی، اور خوشحالی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اگر امت مسلمہ اس وقت متحد ہو جائے تو نہ صرف شام بلکہ پوری اسلامی دنیا کے مسائل کے حل کے لیے ایک مثال قائم ہو سکتی ہے۔
آپ کا تبصرہ